Orhan

Add To collaction

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر 

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر 
 از قلم ایف اے کے
قسط نمبر9
آخری قسط

"وہ اور احد بیٹھے موسم ڈسکس کر رہے تھے کہ ایک دم دانین  نے باہر سے آتے اسے مخاطب کیا تھا ۔۔۔
 "زاھراء آپی آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔۔۔۔ 
 "مجھ سے کون ملنے آسکتا وہ ایک دم اٹھتی بولی تھی وہ احد اور بھابی کو بتاتی باہر آگئی تھے اس نے اپنے گم ہونے والے واقعے کے بعد رضا کو نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی پوچھ سکی تھی احد سے اس کے بارے میں۔۔"اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا اس دن والا لڑکا باہر کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔ 
 "آپ یہاں کیا کر رہے ۔۔وہ حیرانگی سے بولی تھی۔
 "آپ نے تو شکریہ بھی نہیں کہا تھا مجھے ۔اس لئے میں نے سوچا کہ جاکر اپنا شکریہ لے آٶں۔۔۔وہ شرارت سے بولا تھا۔۔ 
 "بہت شکریہ آپ نے مجھے راستہ دیکھایا لیکن ای ایم سوری مجھے آپ کا یہاں آنا بلکل پسند نہیں آیا وہ ناگواری سے اسے دیکھتے بولی تھی۔۔۔
 "ہاہاہاہاہا۔۔۔میں آپ کے لئے آیا بھی نہیں مجھے رضا سے کام تھا میرے اسکے ساتھ بزنس ٹرمز ہیں اسی سلسلے میں ملنا تھا ۔۔لیکن اس کو کال کی تو وہ ابھی ہوٹل نہیں تو میں نے سوچا پتا کرلو آپ کا ۔۔کیونکہ اس دن رضا نے کہا تھا آپ اسکے ساتھ ہے تو لیکن خیر سوری آپ کو برا لگا تو۔ 
"وہ ایک دم پرسکون ہوئی تھی ۔۔۔۔لیکن بولی کچھ نہیں ۔
"اتنے میں رضا گاڑی کی چابی گھماتا اندر آیا تھا۔وہ ایک اسے وہاں کھڑا دیکھ چونکا تھا۔
۔"چلے اب تو رضا بھی آگیا ۔۔۔حمزہ اسے دیکھتا بولا تھا۔ 
 "چلو کئی بیٹھ کر بات کر لیتے رضا نے اس کے قریب آتے کہا تھا۔۔۔
حمزہ نے اثباب میں سر ہلایا تھا۔ 
 "اوکے میم ۔۔۔میں چلتا خداحافظ ۔۔وہ اسکی طرف دیکھ کر مسکراتا آگے بڑھ گیا تھا جب کہ رضا پہلے ہی اسے نظرانداز کرتا وہاں سے جا چکا تھا۔۔      
 ●ایسے بے مہر ہیں پہلے تجھے ڈھونڈیں ہر سُو        اور پاتے ہی تجھے پھر سے گنوانے لگ جائیں●
                           ♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡ 
"رات کو موسم کافی بہتر تھا وہ لوگ سب اکٹھے بیٹھے تھے ۔خلاف معمول آج رضا بھی وہاں موجود تھا۔۔۔۔وہ بھابی کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی۔۔جب کے باقی سب اپنے اپنے موبائل میں لگے تھے۔۔احد کے امی اور ابو سونے جاچکے تھے۔۔۔۔۔۔ 
 "کیا یار چھوڑ دو کچھ دیر ان کی جان۔۔احد نے غصے سے کہا تھا۔۔۔
 "تو اور کیا کرے بھائی اس ٹائم باہر بھی کئی  نہیں جاسکتے۔۔۔۔دانین نے چڑتے ہوئے کہا تھا
۔"باتیں کرتے ناں یا کچھ اور کرلیتے لیکن ان کو اندر رکھو ۔۔۔۔احد نے اسے گھورا تھا
 "چلو محفل ادب لگاتے۔۔۔۔احد نے پرجوش انداز میں کہا تھا۔ 
 "ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔کون سا ادب بھائی آپ کو بھی ایک ہی شعر آتا ہے۔۔اور وہ مجھے بھی آتا ہے عرض کیا ہے۔۔
           ○●وہ گالی بھی مجھے دے تو 
          ○● میں سن کر ضبط کرتا ہوں۔۔ 
            ○● میرے دشمن سمجھتے ہیں
              ○●مجھے غصہ نہیں آتا 
          ○●میرے گھر کے بڑے اکثر  
        ○●مجھے یہ درس دیتے ہیں
      ○●کہ "کتا" کاٹ لے بیٹا اسے کاٹا نہیں جاتا۔۔
۔"واہ دانین ۔۔۔۔بھابی نے اسے داد دی تھی۔ دانین نے ایک ادا سے آداب کہا تھا۔۔۔جب کے احد اسکے انداز پر ہنسا تھا کیونکہ اسے واقعی بس یہ ہی شعر آتا تھا 
 "چلو پھر کیا کرے کوئی گیم کھیل لیتے۔۔۔۔احد نے پھر تجویز دی تھی۔۔۔
 "خبردار احد ہم میں سے کوئی چور سپاہی والی پرچیاں کھیلنے کے موڈ میں نہیں ہے ۔۔۔فعد  ہاتھ اٹھاتے بولے تھا۔۔۔۔ 
 "آپس کی بات ہے یہ میرے بہن بھائی کو ہی سارے مسلئے ہیں۔۔باقی تو کوئی کچھ نہیں کہہ رہا۔۔احد غصہ ہوا تھا۔۔"سب اسکے انداز پر ہنسے تھے۔۔۔ 
 "چلو زاھراء تم بتاٶ کیا کرئے۔۔۔احد نے ایک دم اسے مخاطب کیا تھا۔۔۔ 
 "کچھ بھی کرلو۔۔۔لیکن دانین کے ساتھ میں بھی ایگری کرتی ہوں کے شعروشاعری کو رہنے دو ۔۔مجھے بھی نہیں آتی۔۔ 
 "ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔دیکھا آپ نے احد بھائی مجھے اور فعد بھائی کو ہی بر اعتراض نہیں بس۔۔دانین چہکی تھی۔
 "چلو سب چھوڑو رضا سے گانا سنتے۔۔۔۔احد ایک دم اسکی طرف متوجہ ہوا تھا
 "ہاں سچی رضا بھائی سے گانا سنتے ہیں۔۔۔۔چلے رضا بھائی ہوجائے شروع۔۔۔۔دانین نے بھی اسرار کیا تھا۔۔
 "نہیں یار تم لوگ کچھ اور کولو۔۔۔رضا  نے ایک دم معذرت کی تھی۔۔۔۔
 "کیوں کچھ اور کر لے گانا سنا تو آرام سے۔۔۔اب کی بار احد نے رعب جمایا تھا۔
 " ہاں رضا سنا ہے تمہاری آواز اچھی ہے تو پھر سنا دو ناں فعد بھائی بھی میدان میں کھودے تھے۔ 
 "اوکے میں سناتا ۔۔۔! اسنے بے اختیار زاھراء کو دیکھا تھا۔وہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی اس نے سر جھٹکتے گلا صاف کیا تھا 
 ○○کہہ دے تو آئے گا نہیں،مجھ سے مل پائے گانہیں○○○ 
        ■دیکھوں کیوں راہیں میں تیری■ 
 "اسکی آواز میں ایک عجیب سا سوز تھا۔۔زاھراء کو ایسا لگا وہ اس آواز کے سحر سے نہیں نکل سکتی۔۔۔
 ○○دل سے تو جائے گا نہیں ،تو درد سمجھے گا یہ نہیں○○    
            ■مشکل ہے آگے زندگی■  
            ○○من تھا بڑا تو ہوتا میرا ، ○○ 
              ■تو نہ ملا غم ہے تیرا■
 اور زاھراء خود کو بےبس پاتی تھی۔۔۔ 
     ○○کیوں دیا درد ہمیں ہم آج تلک نہ سمجھے○○
        ■برے ہیں کیا اتنے تم آناں سکئے جو ملنے■
 "وہ اپنے آپ پر ضبط کرتی سر جھکا گئی تھی ۔اسکا دل چاہ رہا تھا یہاں سے بھاگ جائے لیکن وہ جا بھی نہیں سکتی تھی کچھ تھا جو اسے روک رہا تھا۔
    ○○تو ہم کو بھول گیا ۔بس یار ہمیں پاگل تھے○○
                ■سوچا تمہیں جو رات دن■
     ○○جو تو نہ۔ملا مجھے ۔جو تو نہ ملا مجھے○○    
                    ■دل کو کیا بتاوں گا■ 
 "وہ ایک دم خاموش ہوا تھا۔جیسے کوئی طلسم ٹوٹا تھا زاھراء نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔جب کے سب لوگ اس کی تعریف کررہے تھے وہ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔رضا نے ایک دم آنکھیں گھماتے اسے دیکھا تھا چند سیکنڈ لیکن زاھراء کو لگا اسکا وجود فنا ہوگیا ہو وہ حیران سی بیٹھی تھی جب کے سب اٹھ چکے تھے۔۔۔دانین نے اسے پکارا تھا لیکن اسکے دماغ میں فقط دو آنکھیں تھی۔۔۔غم زدہ ۔رنجیدہ ۔سوگوار سی آنکھیں ۔۔۔۔
                         ♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡   
 "اسنے ساری رات تڑپتے گزاری تھی بار بار اسکا لہجہ اسے تکلیف دیتا تھا بار بار اسکی آنکھوں کی ویرانی اسے تنگ کرتی تھی اور اس پر یہ دکھ کے وہ پچھلے چار سال سے  رضا کی بے سکونی کی وجہ تھی وہ ایک دو چکر نیچے کے بھی لگا آئی تھی کہ شاید وہ وہی کئی ہو۔۔۔انسان تب تک دوسروں کے غم کو مذاق ہی سمجھتا ہے جب تک خود اس تکلیف سے نہ گزرے۔۔
۔"آج انہوں نے وآپس جانا تھا وہ اور دانین تیار ہوکر نیچے آئی تو احد انہیں کا انتظار کر رہا تھا۔۔
 "لڑکیوں تم لوگوں کا بھی جواب نہیں آدھا گھنٹہ ہوگیا سب کو گھر کے لئے نکلے بھی اور آپ لوگ ابھی تک تیار بھی نہیں ہوئی۔۔۔وہ ان کو گھورتا بولا تھا 
 "بھائی آ تو گئے ہیں ناں امی لوگ چلے گئے ۔۔۔دانین نے گاڑی میں بیٹھتے پوچھا تھا زاھراء بھی خاموشی سے آکر بیٹھ گئی تھی۔۔
 "بس ہم تینوں رہتے ہیں۔۔۔احد گاڑی سٹاٹ کرتا بولا تھا۔۔ 
 "اور رضا بھائی کہاں ہیں۔۔۔۔دانین نے زاھراء کے دل کی بات پوچھی تھی۔"وہ اپنے ایک اور دوست کے ساتھ چلا گیا صبح اس کی بہت ضروری میٹگ تھی۔۔۔۔۔وہ گاڑی چلاتے ساتھ ساتھ بول رہا تھا۔۔۔ 
 "زاھراء کا موڈ آف ہوگیا تھا ۔وہ بولتا نہیں لیکن کم ازکم پاس تو ہوتا ہی ناں اس نے خاموشی سے رخ باہر کی طرف موڑ لیا تھا۔۔۔  
   "ہر شام سُلگتی آنکھوں کو دیوار میں چُن کر جاتی ہے 
       "ہر خواب، شکستہ ہونے تک زنجیرِ سحر میں رہتاہے  "
                                   ♡♡♡♡♡♡♡♡        
   "کنزہ کا سسرال راولپنڈی میں ہی تھا وہ اپنے شوہر کے ساتھ  مری گئی تھی وہ ان کے آنے کے ایک دن بعد وآپس آئی اس نے زاھراء کو ملنے کے لئے بولا تھا وہ اس وقت ریسٹورنٹ میں اسکا انتظار کررہی تھی ۔۔وہ بلیک ڈریس میں ملبوس تھی سر پر ریڈ کلر کا سکارف تھا۔۔وہ سنجیدگی سے بیٹھی تھی۔۔کہ ایک دم وہ آواز پر چونکی تھی۔
۔"زاھراء ۔۔۔۔شکر آپ ہی ہیں مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کوئی اور خاتون ہوئی تو بےعزتی ہو جاتی۔حمزہ بغیر رکے بول رہا تھا۔۔۔
 "او پلیز آپ کا پیچھا نہیں کررہا میں۔۔آپ اتفاقاً مجھے نظر آئی ہیں۔۔۔وہ اسکی حیرت دیکھتے بولا تھا۔
 "مجھے لگ رہا ہے مجھے تم سے مدر لینے پر پچتانا پڑے گا ۔۔۔۔وہ اسے گھورتی بولی تھی
۔"ایسے ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔وہ اسکے سامنے بیٹھتے بولا تھا۔
۔"آپ اگر مجھے آج کھانا کھیلانے کی آفر کر دے تو حساب برابر ہوجانا۔۔میں نے آپ کی مدد کی اور آپ نے مجھے ٹریٹ دے دی ۔۔۔وہ آرام سے بولا تھا۔
 "میں کیوں آفر کردوں مجھے کوئی شوق نہیں حساب برابر کرنے کا وہ ایک دم ہنسی تھی لیکن اسکی ہنسی ایک دم سمٹی تھی ان سے کچھ فاصلے پر رضا کھڑا تھا پھر وہ ایک دم وآپس پلٹا تھا۔۔۔
 "رضا ۔۔۔۔رضا میری بات سنو وہ اس کے پیچھے بھاگی تھی۔۔۔حمزہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا
 "رضا میری بات سنو پلیز ۔۔ایسا کچھ نہیں ہے وہ ویسے ہی آیاتھا وہ اسے وضاحت دینے کی کوشش کررہی تھی۔ 
 "وہ حیرانگی سے اسے دیکھ رہا تھا اس نے تو وضاحت نہیں مانگی تھی وہ کیوں دے رہی تھی۔۔۔
 "میں نے تو نہیں پوچھا کچھ۔۔۔وہ آرام سے بولا تھا۔
 "مجھے پتا تمہیں لگ رہا ہونا کے میں اس کے ساتھ آئی ہوں لیکن سچ میں ایسا نہیں ہے تم آٶ  بے شک اس سے پوچھ لو۔۔اس نے اسکا بازو  پکڑنا چاہا تھا۔
 " وہ ایک دم پیچھے ہٹا تھا۔۔"مجھے کچھ نہیں لگ رہا زاھراء ۔تم پلیز اپنی جگہ پر وآپس جاٶ ۔۔لوگ دیکھ رہے ہیں۔۔وہ ایک دم غصہ ہوا تھا
۔"میں نے تمہیں دیکھا تھا تم مجھے دیکھ کر پلٹے تھے۔وہ پھر سے وہی بات کررہی تھی۔۔
 "مجھے لگتا ہے مجھے ہی چلے جانا چاہیئے یہاں سے وہ غصے سے وہاں سے نکل گیا تھا۔ 
                            ♡♡♡♡♡♡♡♡♡
 "پلیز میری بات سن لو۔۔۔۔وہ گھر آکر ناجانے رضا کو کتنے میسج اور کال کرچکی تھی
۔"زاھراء کیا مسلئہ ہے تمہیں۔۔۔۔اسکا مختصر جواب آیا تھا۔۔۔"اسنے ایک دم کال کی تھی رضا نے کاٹ دی تھی۔۔۔" 
 "تم نے اگر میری بات نہ سنی تو میں نبض کاٹ لوں گئی ۔۔اسنے ایک دم میسج لکھ بیجھا تھا۔۔۔
 ""ایک سیکنڑ کے اندر ادھر سے کال آنے لگی تھی اسنے فورا کال اٹھائی تھی۔۔۔
 "کیا بکواس کی ہے ابھی تم نے ۔۔۔وہ ایک دم غصے سے چیخا تھا۔۔۔ 
 "مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔۔وہ روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔ 
 "کیا بات کرنی ہے تم نے کرو۔۔۔وہ غصے سے بولا تھا
 "ایسے نہیں میں تمہارے فلیٹ آتی ہوں۔۔۔
 "تم اس وقت میرے فلیٹ نہیں آٶ گی ہم کل بات  لیتے ہیں وہ تھوڑا سا نرم ہوا تھا۔
 "نہیں مجھے ابھی بات کرنی تم آجاٶ میرے گھر۔۔۔نہیں تو میں سچ میں نبض کاٹ لوں گی 
 "کیا پاگل پن ہے زاھراء۔۔۔۔وہ چیخا تھا۔ 
 "تم آجاٶ بس۔۔۔۔۔اسنے کہتے فون بند کردیا تھا
                        ♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡ 
 "وہ بیل کی آواز سنتے دروازے کی طرف دوڑی تھی۔۔"وہ کتنی دیر اسے کھڑی دیکھتی رہی تھی۔۔۔اور رضا کو اس کے انداز حیریت میں مبتلا کررہے تھے۔
 "اندر آجاٶں کیا۔۔۔وہ کافی دیر سے باہر کھڑا تھآ اور زاھراء کا کوئی ارادہ بھی نہیں نظر آتا تھا اسے اندر بلانے کا
 "آجاٶ پلیز ۔۔۔وہ ایک دم شرمندہ ہوئی تھی۔
۔"وہ خاموشی سے چلتا جاکر صوفہ پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔"اور وہ دور کھڑی اس کی موجودگی کا یقین کررہی تھی۔۔ 
 "کیا بات کرنی تھی تم نے۔۔۔وہ بے زاری سے بولا تھا 
 "وہ آرام سے چلتی اس تک آئی پھر ایک دم اس کے قدموں میں بیٹھ گئی تھی ۔۔۔ 
"مجھے معاف کردو رضا خدا کے لئے مجھے معاف کردو۔۔وہ روتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی ۔۔۔ 
 "وہ ایک دم ساکت ہوگیا تھا پھر کھڑے ہوتے اس سے دور ہوا تھا۔ 
 "یہ کیا کررہی ہو ٹم زاھراء وہ حیرانگی سے بولا تھا۔۔۔اٹھو اس نے اسے کندھوں سے پکڑتے اٹھا یا تھا۔
 "تمیہں  سمجھ کیوں نہیں آرہا رضا ۔۔۔وہ اس سے التجا کررہی تھی۔ 
 "کیا سمجھ نہیں آرہا۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا۔۔
۔"وہ آنکھیں جھکا گئی تھی۔۔۔۔پھر اسکی طرف دیکھ کر بولی تھی۔۔۔ 
 "تمہیں یقین نہیں آرہا ناں۔۔۔وہ بے بسی سے بولی تھی۔
 "تم نے کیا تھا یقین ۔۔۔وہ اسکو ماضی کا حوالہ دیتے بولا تھا۔
 "میں معافی بھی تو مانگ رہی ہوں ناں۔۔وہ روتے ہوئے  بولی تھی۔ 
 "وہ ہلکا سا مسکرایا تھا ۔۔۔پھر سخت لہجے میں بولا تھا 
 "تم تو کہتی تھی میں چار پانچ سال بعد اس محبت پر ہنسا کرو گے پھر آج تم کیوں رو رہی ہو۔
 "تم مجھے معاف نہیں کرسکتے۔۔۔۔وہ التجا کرتے بولی تھی۔۔ 
 "وہ خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ 
 "مجھے محبت نہیں رہی اب ۔یاد ہے مجھے حقیقت بتائی تھی ۔تم نے۔کہ آج کل ہر دوسرے بندے کو محبت ہو جاتی۔۔۔رضا اسکو بغور دیکھتا بولا تھا۔ 
 "تم جھوٹ بول رہے ہو تم اگر محبت نہیں کرتے تو میرے دھمکی دینے پو کیوں آئے ہو۔۔۔مری میں  جب میں کھوگئی تو مجھے ڈھونڈنے کیوں آئے تھے۔۔۔تم ترس کھا لو مجھ پر۔۔۔وہ شدت سے روتے بولی تھی
 "جب تمہیں پتا تھا میں مررہا ہوں تو تم لندن کیوں گئی تھی تمہیں بھی تو ترس نہیں آیا تھا مجھ پر۔۔۔۔وہ ایک دم دھاڈا تھا 
 "رضا میں ۔۔۔۔وہ کوئی جواب دیتی کہ رضا نے اسے روک دیا تھا۔ 
 ""تمہیں پتا ہے میں نے ہسپتال میں تمہارا کتنا انتظار کیا تھا ۔۔مجھے ہر آہٹ پر لگتا تم آئی ہو لیکن تم نے چار سال لگادیے آنے میں۔۔میں  اب آہٹوں پر چونکا چھوڑ چکا ہوں۔۔۔ 
 "میں نے چار سال پہلے تمہیں جو سزا دی تھی مجھے سچ میں ملنی چاہیئے ۔۔مجھے تمہارا ہر فیصلہ منظور ہے۔۔۔اس نے رخ موڑتے آنسو صاف کئے تھے۔۔
۔"وہ اسے بغور دیکھ رہا تھا۔۔۔"کچھ دیر ان دونوں کے درمیان خاموشی رہی تھی ۔۔۔اس خاموشی کو زاھراء کی آواز نے توڑا تھا۔ 
 "میں کل صبح وآپس جارہی ہوں ۔۔۔لیکن میں تمہیں اس طرح نہیں دیکھنا چاہتی۔"وہ آرام سے چلتا اس تک آیا تھا۔۔۔پھر اسے اپنے مقابل کھڑے کرتے بولا تھا۔ 
 "اب اگر تم گئی تو تم سچ میں مجھے ایسا نہیں دیکھو گئی۔۔۔پتا ہے کیسے دیکھو گئی " سفید کفن میں لپٹا ہوا۔۔۔"زاھراء نے ایک دم اسکے منہ پر تھپڑ مارا تھا ۔۔پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔۔۔رضا نے آرام سے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا۔۔
۔"زاھرء تم نے میرے ساتھ ساتھ خود پر بھی ظلم کیا تھا۔۔وہ اسے خاموش کراتا بول رہا تھا۔
 "وہ کافی دیر رونے کے بعد اس سے الگ ہوئی تھی۔۔۔
 "اب کیا ارادہ ہے ۔۔۔وہ دلچسپی سے اسے دیکھتا بولا تھا۔ 
 "اسنے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا۔۔۔
۔""شادی کرو گی مجھ سے ۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا۔۔ 
 "وہ ایک دم شرمانے ہوئے رخ موڑ گئی تھی
۔ "چلو تم نہ بھی کرو میں تو تمہیں سے کروں گا۔۔رضا نے اسکا اپنی طرف کرتے کہا تھا     
 ●  باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجالیں تم کو   
           جی میں آتا ہے کہ تعویذ بنا لیں تم کو  ●۔۔
۔۔باز دفعہ ہم کوئی عمل معمولی سمجھ کر ۔کرگزرتے ہیں اور وہ عمل ہماری  زندگی میں آگے جاکر ناسور بن جاتا ہے۔۔۔۔ہر بات کا ایک مطلب ہوتا ہے ایک مخصوص معنی اور جو کوئی اس معنی کو مدنظر رکھ کر چلتا اسی کو زندگی موقع دیتی ہے۔۔۔دنیا اتنی بھی حسین نہیں ہوتی جتنی ہمیں لگتی ہے 
                                        ختم شدہ

   1
0 Comments